Published: 06-06-2018
گجرات ( پ۔ر) مولود کعبہ خلیفہ چہارم امیر المؤمنین حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم جلیل القدر صحابی رسول ،ابن عم رسول ،سیدۃ النساء حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ عنہا کے شوہر ، جنتی نوجوانوں کے سردار امام حسن وامام حسین رضی اللہ عنہما کے والد گرامی ، باب مدینۃ العلم ،فاتح خیبر ،حل المشکلات ،تمام سلاسل روحانیہ کے مرشد وامام طریقت،معدن ولایت ہیں اورآپ کی اولاد سے علوم ومعارف کے سمندر ائمہ اہل بیت اور حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر بے شمار متبحر علماء اور اولیاء کاملین ہیں ۔جن کے ہزارہا فیض یافتگان میں بڑے بڑے محدثین ،فقہاء ،صوفیاءِ اسلام رحمہم اللہ اور ماہرین علوم وفنون اور سائنسدانوں کے نام شامل ہیں جنہوں نے ہر دور اورہر علاقے میں اسلام کو زندہ اور غالب رکھا۔ان خیالات کا اظہار تحریک لبیک یارسول اللہ کے بانی وسرپرست اعلیٰ پیر محمد افضل قادری نے مرکز اہلسنت نیک آباد گجرات میں یوم سیدنا علی المرتضیٰ کے موقع پر کیا ۔انہوں نے کہا: آپ کی ولادت 13رجب /30عام الفیل کو روایتِ مشہورہ کے مطابق خانہ کعبہ کے اندر ہوئی اور 19رمضان المبارک 35ھ کو نماز فجر سے پہلے جامع مسجد کوفہ میں ایک خارجی عبد الرحمن بن ملجم کے ہاتھوں شدید زخمی ہوئے اور 21رمضان المبارک کو جام شہادت نوش فرما کر کوفہ کے قریب نجف الاشرف کے مقام پر مزار اقدس میں جلوہ گر ہوئے ۔انہوں نے کہا: آپ کی پرورش خود حضور نبی اکرمﷺ نے فرمائی۔ آپﷺ کی خصوصی تربیت و فیض رسانی کی بدولت حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ میں عبادت، تقویٰ، اخلاص، احسان، مروت، شجاعت و فتوت، عفو و کرم، توکل، رضا، تفویض، صبر و استقامت، شکر و قناعت، استغناء و عبودیت کی تمام ملکوتی صفات علی وجہ الکمال پائی جاتی ہیں۔انہوں نے کہا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے بچوں میں سے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور غزوہ تبوک کے سوا تمام غزوات میں شامل ہوئے اور غزوہ خیبر سمیت تمام غزوات میں مرکزی کردار اداکیا۔آپ کا فرمان ہے اگر دنیا بھر کے کفار میرے مقابلے میں آجائیں تو نہیں ڈروں گا۔جب آپ کے قاتل عبدالرحمن ابن ملجم نے مسجد کوفہ کے دروازے کے اندر آپ کی پیشانی پر گہرا زخم لگایا تو آپ نے نعرہ لگایا: فزت برب الکعبہ یعنی ’’میں رب کعبہ کی قسم کامیاب ہوگیا‘‘ آپ ہی کے بارے میں رسول اللہﷺنے فرمایا ’’میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں‘‘۔انہوں نے کہا: آپ نے ادب نبوی میں بھی اعلیٰ مثالیں قائم کیں۔ جب صہباء کے مقام پر رسول اکرمﷺ آپ کی گودمیں سر رکھ کر سو رہے تھے تو آپ نے رسول اللہﷺ کو نماز عصر کی ادائیگی کے لیے جگانا پسند نہیں کیا اور ادب نبوی میں نماز چھوڑ دی جس پر رسول اللہﷺ خوش ہوئے اور سورج لوٹنے کی دعا کی جسے اللہ تعالیٰ نے قبول کیا۔ سورج واپس وقت عصر پر پلٹا اور آپ نے نماز عصر ادا فرمائی (معجم الکبیر ،الرقم ۳۹۰،)انہوں نے کہا: آپ نے خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ،خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ،خلیفہ سوم حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے بیعتِ امارت کی اور آپ نے اپنے خطبات میں خلفاء ثلاثہ کی بے حد تعریف و توصیف کی اور کتاب الشافی مطبوعہ ایران کے مطابق ایک شخص نے حضرت ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما کی شان میں گستاخی کی تو آپ نے اسے کوڑے لگوائے اور فرمایا:’’ خیر ھذہ الامۃ بعد نبیھا ابو بکر وعمر‘‘ اس امت کے نبی( ﷺ )کے بعد سب سے افضل ابو بکر وعمر (رضی اللہ عنہما ) ہیں ۔(الشافی فی الامامۃ،جلد 49،صفحہ:8)انہوں نے کہا: باغ فدک اور دیگر باغات واراضی کے بارے میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے فیصلے کو قبول کیا بلکہ اپنے دورِ خلافت میں بھی فیصلہ صدیقی کو بحال رکھا جس کی وجہ سے نبی پاک ﷺ کی سیر ت پاک، دشمنان اسلام کے اس الزام سے محفوظ ہو گئی کہ پیغمبر اسلام ﷺ نے دعویٰ نبوت کے ذریعے اپنی اولا داور رشتہ داروں کو دولتمند بنا دیا ۔انہوں نے کہا اگرمسلم دنیا کے حکمران حضرت امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم اور دیگر خلفاء راشدین کے طریقے پر حکومت کریں تو مسلمانوں کے تمام مسائل حل ہوسکتے ہیں اور امت مسلمہ کی عزت رفتہ بحال ہوسکتی ہے۔