Published: 06-12-2018
ایک زمانہ تھا،جب ہندوستان اور پاکستان کی فلموں میں بہت اعلیٰ درجے کی لوریاں گائی جاتی تھیں،جوطویل مدت تک سامعین کے ذہنوں پر گہرا تاثر چھوڑتی تھیں،لیکن اب نہ مائیں بچوں کو لوریاں سنا کر انہیں سلاتی ہیں،نہ فلموں میں لوریوں کا رجحان ہے،طویل عرصے بعدگزشتہ دنوں ریلیز ہونے والی بھارتی فلم ’’ٹھگز آف ہندوستان ‘‘میں امیتابھ بچن کی آواز میں ایک لوری کو شامل کیا گیاہے۔اس ہفتےماضی کی چند مقبول لوریاں نذر قارئین ہیں:
ماضی کی مقبول بھارتی فلم ’’البیلا‘‘میں شامل ہونے والی شاعر راجندر کرشن کی لوری ایک عرصے تک یاد رکھی گئی،جس کے بول تھے،
دھیرے سے آجا ری اکھین میں نندیا‘
آجا ری آجا دھیرے سے آجا
لے کر سہانے سپنوں کی کلیاں‘
آکے بسا دے پلکوں کی گلیاں
چپکے سے نینن کی بگین میں نندیا آ جا ری آ جا‘
دھیرے سے آجا
لتا منگیشکر کی مدھرآواز میں،موسیقی رام چندرا نے ترتیب دی تھی۔اس لوری میں لتا کی آواز کا جادو سر چڑھ کر بولا اور اسے بچوں اور بڑوں میں بے حد پسند کیا گیا۔اسی طرز پر1955میں پاکستان کی پہلی گولڈن جوبلی فلم ’’نوکر‘‘کے لیےقتیل شفائی کی لکھی ہوئی لوری یا نظم’’راج دلارے توہے دل میں بساؤں، توہے گیت سناؤں‘‘بے حد مقبول ہوئی۔اس کی موسیقی جی اے چشتی نے دی تھی اور اسے ماضی کی گلوکارہ کوثر پروین نے گایا تھا۔کہا جاتا ہے کہ اس مقبول لوری کی بنا پر ہی فلم ’نوکر‘ نے گولڈن جوبلی کی تھی۔یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان اور بھارت کی فلموں میں ایک لوری شامل کرنا ٹرینڈ بن چکا تھا۔اسی تاثر کو لے کر 1955میں ریلیز ہونے والی بھارتی فلم ’’وچن‘‘میں آشا بھونسلے کی آواز میں گائی جانے والی لوری ’’چندا ماما دور کے‘‘کو بھی بہت پسند کیا گیا،اسے آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔اس کی موسیقی شاعر و موسیقار روی نے دی تھی۔ساحر لدھیانوی نے فلم ’’جیون جیوتی‘‘کے لیے ایک لوری لکھی جسے لتا منگیشکر کی آواز میں ریکارڈ کروایا گیا تھا۔اُن دنوں لتا کی آوازمیں گائے جانے والے نغمے فلم کی کامیابی کی ضمانت سمجھے جاتے تھے،لیکن جب لوری کا رجحان بڑھا تو لتا منگیشکرکی آواز میںگائی جانے والے لوری کے بول فلم بینوں کے دلوں کو چھو گئے۔یہی وجہ ہے کہ طویل عرصے تک ایسے کلاسک شاہ کاروں کو یاد رکھا گیا،تاہم پر اثر شاعری کی بدولت لکھی جانے والی لوریوں کے لیےلتا کے علاوہ دیگر گلوکاراؤں کی آوازوں کو بھی پسند کیا گیا۔ 1958ء میں ریلیز ہونے والی کامیاب بھارتی فلم ’’لاجونتی‘‘ میں مجروح سلطان پوری کی لکھی گئی لوری ’’چندا رے چندا رے چھپے رہنا‘‘ بہت پسند کی گئی،اسے گیتا دت نے گایا تھا،انہیں سریلی آواز کی ملکہ کہا جاتا تھا۔گیتا دت کی ہی آواز میں1959میں بمل رائے کی فلم ’’سجاتا‘‘کے لیے گائی گئی لوری ،جسے مجروح سلطان پوری نے لکھاتھااور اس کی موسیقی ایس ڈی برمن نے ترتیب دی تھی،اس کے بول تھے،
ننھی کلی سونے چلی، ہوا دھیرے آنا
نیند بھرے پنکھ لیے جھولا جھلانا
چاند کے رنگ سی گڑیا، نازوں کی ہے پلی
چاندنی آج آنا میری گلی‘ ننھی پری سونے چلی
اس لوری کے بول بے حد مشہور ہوئے۔ 1963میں فلم ’’ایک دل سو افسانے‘‘ کے لیے شاعرشیلیندرا کی لوری کولتا منگیشکر کی آواز میں ڈھالا گیا،یہ لوریفلم کی کامیابی کی ضمانت بنی اور اسے بہت پسند کی گیا،اس کے بول تھے،’’دور کے او چاند‘‘۔محمد رفیع کی آواز میں 1966 میںریلیز ہونے والی فلم ’’برہم چاری‘‘ میں ایک لوری شامل کی گئی ،جو ان کی مدھر گائیکی کی مثال ہے۔اس کے بول تھے۔ ’’میں گائوتم سو جائو‘