Published: 21-01-2020
لندن : برطانوی پارلیمنٹ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مسلمان خواتین ارکان کی تعداد مسلم مرد ارکان پارلیمنٹ سے زیادہ ہوگئی ہے، 12 دسمبر کو ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں فی الوقت برطانوی پارلیمنٹ میں خواتین ارکان کی مجموعی تعداد 220 ہے جبکہ گزشتہ پارلیمنٹ میں خواتین ارکان کی تعداد 208 تھی، 2017 میں ہونے والے الیکشن کے نتیجے میں 16 مسلمان پارلیمنٹ کا حصہ بنے تھے، جن میں خواتین کی تعداد 8 تھی، نئے انتخابات کے نتیجے میں مسلمان ارکان پارلیمنٹ کی تعداد بڑھ کر ریکارڈ 21 ہوگئی، جن میں خواتین کی تعداد 11 ہے، ان میں سے 6 مسلمان خواتین کا پاکستان اور کشمیر سے ، 4کا بنگلہ دیش سے اور ایک کا کرد نسل سے ہے۔ 12 دسمبر کو ہونے والےعام انتخابات کیلئے لیبرپارٹی نے 50 فیصد سے زیادہ ٹکٹ خواتین کو دے کر ریکارڈ قائم کیا، جس کے نتیجے میں آج برطانوی پارلیمنٹ میں لیبر پارٹی کے 203 ارکان میں سے 103 خواتین ارکان ہیں۔ انتخابات میں 20 نشستوں پر پاکستان نژاد خواتین کھڑی ہوئی تھیں لیکن صرف 6 منتخبہوسکیں، جن میں 5 دوبارہ منتخب ہوئی ہیں، ان میں شبانہ محمود، یاسمین قریشی، ناز شاہ، ڈاکٹر روزینہ خان، لیبر سے اور نصرت غنی کنزرویٹو سے پارٹی سے دوبارہ منتخب ہوئی ہیں جبکہ کوونٹی سائوتھ سے 27 سالہ زارا سلطانہ نے لیبر پارٹی کے ٹکٹ پر پارلیمنٹ کی سب سے کم عمر خاتون رکن منتخب ہو کر ریکارڈ قائم کیا ہے۔ 12 دسمبر کو ہونے والےعام انتخابات میں کنزرویٹو پارٹی کے امیدوار سے سخت مقابلے کے بعد کامیاب ہونے والی 27 سالہ کشمیر نژاد زارا سلطانہ 1992 میں برمنگھم میں پیداہوئیں، زارا کے دادا 1960 میں کشمیر سے برمنگھم آکر آباد ہوئے تھے، 39 سالہ شبانہ محمود پہلی مرتبہ 2010 میں برطانیہ کا سب سے پسماندہ علاقہ تصور کئے جانے والے برمنگھم کے لیڈی ووڈ حلقے سے منتخب ہوئی تھیں، ان کے والدین میرپور سے برمنگھم آئے تھے وہ لنکن ان کالج سے لاگریجویٹ اور بیرسٹر ہیں، وہ 1 201 میں شیڈو بزنس سیکرٹری اور شیڈو فنانشیل سیکرٹری کے عہدوں پر فائز رہیں، 2015 کے بعد وہ شیڈو چیف سیکرٹری ٹریژری بنائی گئیں لیکن بعد میں انھوں نے اس عہدے سے استعفیٰ دیدیا تھا۔ 2016 میں پارٹی قیادت کے انتخابات میں انھوں نے موجودہ قائد جیرمی کوربن کی کھل کر مخالفت کی تھی۔ 59 سالہ یاسمین قریشی گجرات میں پیدا ہوئیں اور 9 سال کی عمر میں اپنے والدین کے ساتھ برطانیہ آئیں اور 2010 میں لیبر پارٹی کے ٹکٹ پربولٹن سائوتھ ایسٹ سے کشمیر نژاد شبانہ محمود اور بنگالی نژاد روشن آرا کے ساتھ منتخب ہوئی تھیں، یاسمین قریشی پہلی مسلم خواتین ارکان میں شامل تھیں، انھوں نے قانون کی تعلیم حاصل کی اور بیرسٹر ہیں۔ انھوں نے کوسوو میں اقوام متحدہ کے مشن کی قیادت بھی کی تھی۔ کشمیری نژاد نصرت غنی برمنگھم میں پیدا ہوئیں وہ 2015 میں کنزرویٹو پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والی پہلی مسلم خاتون تھیں، وہ 2015 اور 2017 ہوم آفس کی پارلیمانی امور کی سیلیکٹ کمیٹی کی رکن رہی ہیں۔ 2018 میں انھیں اسسٹنٹ وہپ اور ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ کی وزیر بنایا گیا، 2017 میں روایتی پاکستانی لباس شلوار قمیض میں ملبوس ہو کر اردو میں حلف اٹھانے والی وہ پہلی خاتون تھیں۔ نصرت غنی 37 ہزار43 ووٹ لے کر تیسری مرتبہ رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئی ہیں۔ ناز شاہ بریڈ فورڈ میں پیدا ہوئیں، وہ پہلی مرتبہ 2015 میں بریڈ فورڈ ویسٹ سے ریسپیکٹ پارٹی کے امیدوار جارج گیلووے کو 11 ہزار سے زیادہ ووٹ سے شکست دے کر منتخب ہوئی تھیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ اس نشست پر پارٹی کی پہلی پسند نہیں تھیں بلکہ امینہ علی کی جانب سے ذاتی وجوہات پر انتخاب نہ لڑنے کے فیصلے کے بعد انھیں ٹکٹ دیا گیا اور انھوں نے 21ہزار902 ووٹ سے شکست دے کر،ان انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ ناز شاہ نے بریڈ فورڈ ویسٹ سے تیسری مرتبہ کامیابی حاصل کی ہے، انھوں نے 33 ہزار 736 ووٹ لے کر اپنے مخالف امیدوار کو 27 ہزار 109ووٹ سے شکست دے کر یہ نشست حاصل کی ہے۔ ڈاکٹر روزینہ علین خان 2016 میں ٹوٹنگ کے ضمنی انتخابات میں کامیابی سے قبل تک پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھیں۔ یہ نشست لندن کے میئر صادق خان کے میئر منتخب ہوجانے کے بعد خالی ہوئی تھی۔ روزینہ کی والدہ پولینڈ نژاد گلوکارہ ہیں جبکہ ان کے والد کا تعلق پاکستان سے ہے، ان کے والدین میں شادی کے چند سال بعد ہی علیحدگی ہوگئی تھی۔ انھوں نے برونائی یونیورسٹی سے میڈیکل بایو کیمسٹری کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد کاوندش کالج کیمبرج سے میڈیسن کی تعلیم حاصل کی۔ رکن پارلیمنٹ منتخب ہونے سے قبل روزینہ خان ونڈز ورتھ کونسل میں بریڈ فورڈ کے بیل ہیم وارڈ کی کونسلر کی حیثیت سے بھی خدمات بھی انجام دیتی رہی تھیں۔