Published: 25-04-2018
جب ہم جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ معاشرے میں معاشرتی انصاف ہے تمام لوگ قانون کی نظر میں برابر ہیں جمہوریت میں اقتدار اعلیٰ اعوام کے ہاتھوں میں ہوتا ہے یعنی ایک ایسی حکومت جس میں ایک حکمران جماعت پوری قوم کے ایک بڑے حصے پر مشتمل ہوتی ہے ۔ لیکن جمہوریت کی کامیابی کی پہلی شرط بنیادی تعلیم ہے ۔ کیونکہ تعلیم ہی افراد میں سیاسی شعور پیدا کرتی ہے اور اسی کی بدولت وہ اپنے حقوق اور فرائض سے آگاہ ہوتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ سیاسی رہنماؤں کا قابل ، لائق، دوراندیش اور تعلیم یافتہ ہونا بھی نہایت ضروری ہے لیکن افسوناک پہلو یہ ہے کہ عوام کی بڑی تعداد صرف اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہیں اس کے ذریعے ایک اچھے اور قابل لیڈر کا انتخاب نہیں کرتے ۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں جمہوریت ہمیشہ خطرے میں ہی نظر آتی ہے ۔ اسی وجہ سے جمہوریت کے اصل ثمرات عوام تک نہیں پہنچتے جمہوریت کے حق میں عام طور رپ یہ نعرہ لگایا جاتا ہے کہ آج تک غور و فکر کے ذریعے انسان نے حکومت چلانے کے لیے جتنے نظام وضع کیے ہیں جمہوریت ان سب میں سے بہتر ہے اگر واقع جمہوریت اب تک وضع کردہ تمام نظاموں سے بہتر ہے تو ہمارے ملک میں اور تیسری دنیا کے بہت سے اور ملکوں میں یہ نظام وہ نتائج کیوں نہیں سامنے لاتا جس سے دنیا کے بہت سے ترقی یافتہ ممالک بہرہ ور ہو رہے ہیں اس کا صرف کا ایک ہی جواب ہے جب کوئی نظام وہ بنیادی شرائط ہی پوری نہ کرتا ہو جس پر اس کی پرفارمنس اور ترقی کا انحصار ہو تو اس سے نتائج کس طرح برآمد ہو سکتے ہیں برادری سسٹم ، مذہبی عقائد ، فیوڈلزکے غلبے کی وجہ سے دیہی آبادی جو کل آبادی کا 60%ہے ۔ مجموعی طور پر اپنے ووٹ کا صحیح استعمال نہیں کر پاتی ۔ جمہوریت کی دو اقسام ہیں :
بلاواسطہ جمہوریت، بالواسطہ جمہوریت
1۔ بلاواسطہ جمہوریت کا آج کے دور میں تصور ممکن نہیں اس لیے کہ ریاستیں وسیع علاقے پر مشتمل ہوتی ہیں اور آبادی بھی زیادہ ہوتی ہے یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ کسی ریاست کے تمام افراد ایک جگہ اکٹھے ہو کر ریاست کے معاملات میں حصہ لیں ایسا ممکن نہیں ۔
2۔ بالواسطہ جمہوریت : اس قسم کی جمہوریت میں حکمران جماعت عوامکی رائے کے مطابق حکومت چلاتی ہے ۔ آج کل کی تمام جمہوری حکومتیں در حقیقت بالواسطہ جمہوری طرز کی ہیں اگرچہ ان دونوں اقسام میں عوام کی رائے کے مطابق طرز حکومت چلائی جاتی ہے ۔ لیکن اس کے باوجود عوام کی ایک بڑی تعداد جمہوری حکومت سے نالاں نظر آتی ہے ۔ اس کی وجہ سے اس نظام میں پائی جانے والی دو خامیاں ہیں۔
1۔ اس نظام کے تحت معاشرہ دو گروہوں امیر اور غریب میں تقسیم ہو کر رہ جاتا ہے اقتدار کو حاصل کرنے کے لیے سرمایہ دار لوگ پیسہ پانی کی طرح بہا کر اور ووٹروں کو مختلف قسم کے لالچ دے کر اقتدار حاصل کرلیتے ہیں اور قابل تعلیم یافتہ نوجوان کو صرف مالی حیثیت کی وجہ سے لیڈر بننے کے قابل نہیں سمجھا جاتا ۔ اس میں تمام تر فیصلے اکثریت کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ لہٰذا معاشرے کی اقلیتی لوگ ہمیشہ اکثریت کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں اس نظام کی دوسری خامی جمہوریت قوم کو مختلف پارٹیوں میں تقسیم کرتی ہے ۔ جس کی وجہ سے ہر پارٹی اپنے مفاد کو مد نظر رکتھی ہے بجائے ملکی بقاء اور سا لمیت کے باقی رہی سہی کسرموروثی سیاست نکال دیتی ہے جمہوریت کا سیدھا سادھا فلسفہ ہے کہ نظام معاشرہ پر کسی طاقت ور فرد ، خاندان، قبیلے برادری طبقے ،علاقے کی اجارہ داری کو ختم کرکے اس اقتدار اور اختیار کو عوام الناس کی سطح تک کسی متفقہ معاہدہ کے تحت بانٹ دیا جائے لیکن ایسا نہیں ہوتا ۔ جمہوری نظام میں موجود تضادات کو حل کیے بغیر اس نظام کو مؤثر، فعال اور تعمیری نہیں بنایا جاسکتا۔ ریاست آئین کی بالا دستی ، عدلیہ کی آزادی اور شفاف احتساب کو یقینی بنائیں۔ عوام کو صحت، تعلیم جیسی بنیادی سہولتوں کے ساتھ ساتھ روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں اور اس جمہوری نظام کو لاگو کیا جائے جسے عوامی ووٹ سے لایا جاتا ہے ۔ تاکہ جمہوریت ملک اور قوم کے لیے فائدہ مند ثابت ہو۔ جمہوریت میں عوام کی حکمرانی ہوتی ہے مگر ہمارے جمہوری نظام میں عوام کی حیثیت صرف اس مہر کی ہے جس سے ووٹ کی پرچی پر نشان لگایا جاتا ہے ۔ شخصیت پرسی جمہوری اصولوں کے ہی منافی ہے ۔ مگر ہمارے سیاسی لیڈ ر تا حیات پارٹی کے چیئر مین بن جاتا ہیں۔ سیاسی اور جمہوری نظام کو مضبوط بنانے کے لیے تمام اداروں کا اپنے آئینی دائرہ اختیار میں رہے ہوئے کام کرنا ضروری ہے ۔ پاکستان میں جمہوریت کو پھلنے پھولنے کے لیے عوام کی زندگیوں میں ایک صاف ستھرے اور شفاف انداز میں تھوڑی سی بہتری لانے کی ضرورت ہے اور جب تک ایسا نہیں ہوتا لانگ مارچز اور انقلاب کے نعرے کے ذریعے نظام کو بدلنے کا مطالبہ بجائے ایسی اصطلاحات کے جو موجودہ جمہوری نظام میں زیادہ شفافیت اور احتساب کی روایات لائے۔ پاکستان میں جمہوریت کے لیے ایک ڈراؤنے خواب کی طرح ہے ۔